عمران خان اور کرپشن؟

0

پاکستان کے ایک اور سابق وزیراعظم عمران خان کو احتساب عدالت نے ”بدعنوان“ قرار دیتے ہوئے14سال قید بامشقت کی سزا سنا دی ہے،اُن پر دس لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔اگر جرمانہ ادا نہیں کیا جائے گا تو مزید چھ ماہ جیل میں گذارنا پڑیں گے۔اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بھی ”شریک جرم“ ہونے کی وجہ سے سات سال کی قید سنائی گئی ہے۔انہیں پانچ لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا ہو گا،بصورت دیگر تین ماہ قید رہنا پڑے گا۔ نتیجتاً وہ کسی عوامی عہدے کے لیے بھی نااہل قرار پائیں گے، گویا انتخاب میں حصہ نہیں لے سکیں گے لیکن یہ نااہلی تاحیات نہیں ہو گی کہ سپریم کورٹ اِس حوالے سے اپنے گذشتہ فیصلوں پر نظرثانی کر چکی ہے۔اِس مقدمے کے کئی دوسرے ملزم ایسے ہیں جنہیں گرفتار نہیں کیا جا سکا انہیں اشتہاری قرار دے کر اُن کا معاملہ الگ کر دیا گیا ہے،جب اُن کی گرفتاری ممکن ہو پائے گی تو اُن پر مقدمہ چلا لیا جائے گا۔یہ بھی ممکن ہے کہ اعلیٰ عدالت احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دے دے یا اُس میں ترمیم و تخفیف کر ڈالے،اِس کا فائدہ ”مفرور“ ملزمان کو بھی مل جائے گا۔ یہ مقدمہ نیب آرڈیننس کے تحت چلایا گیا اِس لیے اِس کے بانی جنرل پرویز مشرف کی روح کو بھی اِس کا ”ثواب“ پہنچ جائے گا۔عمران خان جن کی سیاست کا آغاز ”انصاف“ کے نعرے سے ہوا تھا اور جو کرپشن کے خلاف جہاد کے نام پر پھلی پھولی تھی، اُنہی کو ”کرپشن“ کے الزام نے دبوچ لیا ؎

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں

تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں

الزام یہ لگایا گیا تھا کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض حسین سے190ملین پاؤنڈ برطانیہ میں برآمد کر کے حکومت ِ پاکستان کو بھجوائے تھے تاکہ انہیں قومی خزانے میں جمع کرایا جا سکے۔ اسے وزیراعظم عمران خان اور اُن کے مشیر احتساب شہزاد اکبر کی ملی بھگت سے ملک ریاض حسین کو واپس کر دیا گیا۔ کابینہ میں یہ معاملہ پیش ہونے سے پہلے ہی برطانیہ کی کرائم ایجنسی کو سپریم کورٹ کا وہ بنک اکاؤنٹ دیا جا چکا تھا جس میں ملک ریاض حسین پر عائد جرمانے کی رقم قسط وار جمع ہونا تھی (برطانوی ایجنسی نے اسے حکومت ِ پاکستان کا اکاؤنٹ سمجھ کررقم اُس میں منتقل کر دی)اِس طرح قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا۔نیب کا کہنا ہے کہ اس عنایت کے بدلے القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے زمین حاصل کی گئی اور اِس کی عمارت تعمیر کرائی گئی۔وکلاء صفائی کا استدلال تھا کہ 190ملین پاؤنڈ کا القادر ٹرسٹ یونیورسٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ مذکورہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئی تھی جسے بعدازاں عدالت ہی کے حکم پر بمع سود قومی خزانے میں منتقل کر دیا گیا،اِس لئے حکومت ِ پاکستان کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا۔القادر یونیورسٹی کسی کی ذاتی ملکیت نہیں،اِسے ایک ٹرسٹ نے قائم کیا ہے، یہ مانا کہ اِس کے ٹرسٹی عمران خان اور اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی ہیں لیکن اِسے اُن کی ملکیت قرار نہیں دیا جا سکتا۔جب ملکیت اُن کی نہیں تو پھر وہ اِس سے فائدہ اٹھانے والے (BENEFICARY) کیسے قرار پا سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ190ملین پاؤنڈ کے حوالے سے جو بھی فیصلہ ہوا، وہ وفاقی کابینہ نے کیا،کسی ایک شخص کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں